Friday, October 13, 2017

قادیانیوں کا مسئلہ

آجکل قادیانیوں کا مسئلہ زور و شور کے ساتھ زیر بحث ہے لہذا یہ مناسب وقت ہے کہ میں اس مسئلے کو اپنی عوام، فوج اور پارلیمنٹ کیلئے واضح کردوں۔
پاکستان کے اسلامی قوانین کے تحت ہندو مذہب، یہودیت، عیسائیت وغیرہ قابل قبول مذاہب ہیں اور انکے ماننے والے خود کو مسلمان نہیں کہتے۔
جیسا کے دوسرے مذاہب کے لوگ خود کو مسلمان نہیں کہتے اور اپنے اپنے مذاہب کے عقائد پر چلتے ہیں تو ہم مسلمانوں کی جانب سے انکو کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پرتا مگر قادیانیوں کا شمار غیر مسلموں کے انتہائی خطرناک خانے میں ہوتا ہے۔
کیونکہ یہ خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں، مسلمانوں کے عقائد کی انتہائی غلط اور گمراہ کن تشریح کرتے ہیں اور باقی مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں۔
آپ دنیا کے کسی مذہبی و غیر مذہبی قانون کو اٹھا کر دیکھ لیں، دھوکے اور فراڈ کو سنگین جرم کے طور پر ہی لیا جاتا ہے۔ میں خود کو اگر آرمی آفیسر یا منسٹر کے طور پر پیش کروں گا تو بلاشبہ یہ ایک جرم ہوگا۔
قادیانیوں کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ یہ حضورﷺ کے گستاخ ہیں، مکر و فریب سے کام لیتے ہیں اور اسلامی عقائد کو توڑ مروڑ کر ان پر قابض ہونا چاہتے ہیں، انھی وجوہات کی بنا پر انکے خلاف شدید ردعمل دیکھنے کو ملتا ہے۔ مسئلہ اس وقت مزید شدت اختیار کرلیتا ہے جب یہ خود کو غیر مسلم ماننے سے انکار کرتے ہیں، ریاست پاکستان کے خلاف اپنے اندر شدید بعض رکھتے ہیں اور ریاست پاکستان سے بھی پہلے اپنے لیڈر کے ساتھ وفاداری رکھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ حقیقی مسلمانوں کے درمیان ان قادیانیوں کو پہچاننا بہت مشکل ہوجاتا ہے اور ایسے میں ایمان کے متعلق حلف نامہ ناگزیر ہوجاتا ہے۔تو اگر قادیانیوں کو یہ لگتا ہے انکے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے تو اسکے سب سے بڑے ذمہ دار خود قادیانی ہی ہیں۔ انکو کھل کر تسلیم کرلینا چاہیئے کہ یہ غیر مسلم ہیں۔
پوری دنیا کے مسلمانوں کیلئے اپنے آقاﷺ کی ناموس کا معاملہ انتہائی حساس ہے اور کسی بھی جھوٹے نبی یا مسیحا کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس بات کو اچھی طرح جان لیں کہ ہم مرزا کو نبی نہیں مانیں گے۔
جب نون لیگ والوں نے قادیانیوں کو مسلمان بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی تو ایسے میں شدید ردعمل تو ہونا ہی تھا۔
قادیانیوں کو اپنی ہی بھلائی کیلئے اب اسلام کے جھوٹے لبادے سے باہر نکل آنا چاہیئے اور خود کو غیر مسلم تسلیم کرلینا چاہیئے اور مسلمانوں کے عقائد پر قابض ہونے کی کوششوں کو ترک کردینا چاہیئے ورنہ انھیں اسی قسم کے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

No comments: